ہماری شہرتوں کی موت بے نام و نشاں ہو گی
نہ کوئی تذکرہ ہوگا نہ کوئی داستاں ہو گی

اگر میں لوٹنا چاہوں تو کیا میں لوٹ سکتا ہوں
وہ دنیا ساتھ جو میرے چلی تھی اب کہاں ہو گی

پرندے اپنی منقاروں میں سب تارے چھپا لیں گے
جوانی چار دن کی چاندنی ہے پھر کہاں ہو گی

درختوں کی یہ چھالیں بھی اتر جائیں گی پتے کیا
یہ دنیا دھیرے دھیرے ایک دن پھر سے جواں ہو گی

ہوائیں روئیں گی سر پھوڑ لیں گی ان پہاڑوں سے
کبھی جب بادلوں میں چاند کی ڈولی رواں ہو گی

کسی معلوم تھا ہم لوگ اک بستر پہ سوئیں گے
Ø+فاظت Ú©Û’ لیے تلوار اپنے درمیاں ہو Ú¯ÛŒ

پسینہ بند کمرے کی امس کا جذب ہے اس میں
ہمارے تولیے میں دھوپ کی خوشبو کہاں ہو گی

کسی گمنام پتھر پر بہت سے نام لکھ دو گے
تو قربانی ہماری اس طرØ+ سے جاوداں ہو Ú¯ÛŒ

زمینیں تو مری اجداد نے ساری گنوا دی ہیں
مگر یہ ایک مٹھی خاک خود اپنا نشاں ہو گی
***